آئڈ نٹفکیشن


٭ کیا تم اس شہر کا ذکر کررہے ہو جس کی سڑکیں تمہارے دل کی طرح کالی ہیں
٭ نہیں! میں اس شہر کا کہہ رہا ہوں جس کا دماغ تمہاری کھوپڑی کی طرح خالی ہے
٭ میں پھر کہتا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ شہر جیسا بھی ہے پر اس وقت چھوڑ دو ان باتوں کو ۔۔۔۔۔
دیکھو میں درخواست کررہا ہوں ۔۔۔۔ ایک آخری درخواست
چھوڑ دو ان راستوں کو ۔۔۔۔ جو تمہیں جنازوں کی موت کےمزاروں کا نیا مجاور بنانے جارہی ہیں ۔
٭ نہیں ۔۔۔ تم نہیں سمجھ سکو گے ۔۔ تمہیں نہیں پتہ کہ جو لوگ راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں راستے بھی ان کو چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ جو مزار تم دیکھ رہے ہو یہ وہی ہیں جنہیں ان راستوں سے محبت تھی جبھی تو اس کی گودی میں انہوں نے اپنی جانیں دے ڈالیں ۔
٭ اور اگر کوئی راستے سےبھٹکجاتا ہے ؟؟؟
٭ تو ۔۔۔۔ بھٹک جاتا ہے ۔۔۔۔
٭ دیکھو ! میری اس آخری درخواست کو راستوں کے ہیر پھیر میں مت الجھاﺅ ۔۔۔۔تمہیں اس خون کا واسطہ جو ہم دونوں کی رگوں میں بہہ رہا ہے
٭ تم کسِ خون کا واسطہ دے رہے ہو ۔۔۔ اس خون کا جس کی سرخی سے تم نے اس شہر کی سڑکوں پر لیپ کروایا تھا ۔۔۔۔؟ جان لو کہ اس لیپ کے نقوش ابھی تمہارے خون کی طرح سفید نہیں ہوئے ۔۔
٭ جانتے ہو ۔۔ اس واقعہ کے بعد سے میرے اور تمہارے کتنے آدمی گزرگئے؟
٭ جو کچھ کہنا ہے صاف صاف کہہ دو
٭میرا مطلب ہے ۔۔ اس کھیل سے اکتاہٹ سی ہونے لگی ہے۔۔۔ اب اگر صلح کی کوئی ۔۔۔۔۔؟؟؟
٭ یہ بات تم نے اتنی آسانی سے کیسے کہہ ڈالی ۔۔۔ اس واقعہ سے لے کر آج تک ہمارے سرفروشوں کا خون اس شہر کی سڑکوں سے اس گاؤں کی گلیوں تک پھیلتا ہی چلا آیاہے ۔۔۔۔ اور معلوم نہیں آگے کیا ہوگا لیکن جو بھی ہوگا ۔۔۔۔ اچھا ہی ہوگا پڑھنا جاری رکھیں→

فراز کے نام


احمد فراز

احمد فراز

اب اگر تمہارے بارے میں نہ لکھوں تو کس کے بارے میں لکھوں جب بھی تم ہی نے قلم اٹھایا تھا جب غنیم کے لشکر تمہارے گرد محاصرہ تنگ کیے ہوئے تھے اور جب ہنروروں نے اپنے ہنر کا سودا کیا تب بھی تم امید لطف میں کجکلا ہوں کے درباروں میں جانے کے بجائے اپنے ضمیر کا فیصلہ اپنے قلم کی عدالت میں لے گئے تم نے اس بھوکی مخلوق کی آزادی کے جشن میں ان کے ہاتھوں مں کچکول اور ان کے سینوں پر غیروں کی بندوق دیکھ کر انقلاب کا نعرہ بلند لگایا۔ تم نے اس محصور شہر میں اپنی آواز کو گداگری نہیں سیکھائی اور جب ہر چہرہ دو دو ٹکڑوں اور دہرے نقابوں میں تقسیم ہونے لگا اور زندگی کی تصویر جلتے جلتے بالکل کالی ہوگئی تو ایک دن وہ بھی آیا جب تم اس ملک کو چھوڑ کر جلاوطن ہوگئے دیار غیر میں بھی تم بس ایک قلم کی حرمت کو اپنا اثاثہ بنائے رکھا۔
یاد ہے ایک دن جب موسم بدلیوں سے ڈھکا ہو ا تھا مین نے تم سے تمہارے رونے کی بابت پوچھا تھا اور تمہارا جواب تھا۔۔۔
’’میں بہت رویا‘‘
یقیناً جلاوطنی کے ایسے ہی لمحوں میں تمہاری اکیلی راتیں بہت روئی ہوں گی ۔ تم نے شاید ایسی ہی ایک اکیلی رات میں کہا تھا۔


روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتا ہے
اے مرے شہر پشاور تیری یاد آئی بہت پڑھنا جاری رکھیں→