درد کا دارو


ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کے پاس اس درد کا کوئی علاج نہیں تو آپ مجھے نشے کی یہ گولیاں کیوں دے رہے ہیں؟ پتہ نہیں آپ مجھے فریب دے رہے یا اپنے آپ کو۔۔۔۔۔
نہیں ڈاکٹر صاحب! مجھے شعور کی سطح پر اس درد کو محسوس کرنے دیجئے کیونکہ میں نے آج تک دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی محض اداکاری ،بھونڈی حرکتیں یا صاف کہیں تو صرف کرتب دکھائے ہیں۔
آپ یہ گولیاں دے کر سمجھتے ہیں مجھے آرام ملے گا لیکن یہ آپ کی خوش فہمی ہے ایک نفسیاتی معالج کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس کے پاس بہت ساری گھتیوں کو سلجھانے کا ہنر ہوگا لیکن آپ کی ساری باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں آپ تو یہ بھی جانتے ہیں مجھ جیسے مریض بہت ساری چیزیں شعور نہیں بلکہ لا شعور کی سطح پر محسوس کرتے ہیں اور یہ تو مجھے ابھی معلوم ہوا کہ آپ میری کہانیاں اپنی زمانہ طالب علمی سے پڑھتے آئے ہیں۔
تو میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کی وہ ساری کہانیاں ایسے ہی لمحات کی دین ہیں جب میں ماورائے شعور زندگی کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن شعور میں آتے ہی مصلحت کے ہاتھوں اپنا قلم روک لیتا تھا شعور کا یہ سپاہی میرے لڑکپن سے اپنا سونٹا لیے میرے ذہن اور میرے ادراک کے دروازے پر پہرا دیتا رہا ہے قبل اس کے کائنات کے کسی چھپے ہوئے خزانے کی کنجی میرے ہاتھ لگتی یہ سپاہی آگے بڑھ کر میری نگاہوں کو اس منظر میں بھٹکا دیتا جو صرف سامنے دکھائی دیتا ہے جو سب کو یکساں نظرآتا ہے اور جس نے گویا میری تلاش کا راستہ روکا ہوا ہے، آپ کی یہ گولیاں کھا کر میں بے مزہ تو نہیں ہوتا لیکن میں صرف اپنے بارے میں آپ کی خام خیالی یا آپ کے بارے میں آپ کی غلط فہمی دور کرانا چاہتا ہوں، آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ درد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وقت بھی جن کا مرہم نہیں ہوسکتا پھر کیوں ہم دونوں اس درد کی دوا بننے کا انتظار کریں ، میں جانتا ہوں کہ قدرت نے انسان کو اذیت اور مشقت میں پیدا کیا ہے ممکن ہے آپ میرے خیالات کو کوئی اورمعنی دیں لیکن آپ شاید سوچ بھی نہیں سکتے کہ اپنی پیدائش کے وقت میں صرف اس لیے رویا تھا کہ مجھ سے میری ماں کی اذیت دیکھی نہ گئی ڈاکٹر صاحب! آپ بہت ضد کرتے ہیں دوائی دینے میں۔ ۔۔۔ سمجھا کریں نہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔۔۔۔ پڑھنا جاری رکھیں→

غزل


کوئی اجنبی خلش ہے کوئی اجنبی چبھن ہے
مجھے بھی خبر نہیں ہے مجھے کون سی لگن ہے


مری عقلِ حیلہ جُو نے کئی شانے توڑ ڈالے
تری زلف میں ابھی تک وہی خم وہی شکن ہے


تری رسمِ بے رُخی کو ترا طرزِ ناز سمجھا
میرے دیدۂ عقیدت میں عجیب بانکپن ہے


کئی روپ میں نے بدلے تری دلبری کی خاطر
تری بے نیازیوں کا وہی طور وہ چلن ہے


مری وسعتِ نظر کی نہیں سرحدیں کہیں بھی
مرا ہر جگہ بسیرا میرا ہر وطن ، وطن ہے


تری دلنشیں غزل ہے کہ پیامِ زیست طاہر
یا کہیں سحر کے دامن سے گری کوئی کرن ہے 

طاہرکلاچوی

اردو کا پروفیسر


کچھ لوگ انکشافِ ذات کے لیے ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ بعض گوتم کی طرح جنگلوں میں نکل جاتے ہیںچند ایک طوطے سے فال نکلواتے ہیں اور کئی ایک تو قیافہ آشناؤں اور دست شناسوں کے آگے دھونی رماتے نظر آتے ہیں۔ لیکن میں نے اس گھمبیر و گنجلک مسئلے کے آسان اور سستے حل کے لیے دیوار پر لٹکتے آئینے کا رُخ کیا ۔ پھر کیا تھا، میرے ہی عکسِ ہزار جہت نے مجھے اپنے خدوخال کے نشیب و فراز کی کچھ چھپی، کچھ اَن چھپی داستانِ ہزار قسط یوں سنانی شروع کر دی:
ٍ    اونٹ کی طرح اردو کے پروفیسر کی بھی آپ کو کوئی کل سیدھی نہیں ملے گی ۔ اُس کی نشست و برخاست اُس کی گفت و شنید اور اُس کے عادات و خصائل میں ایک ایسی مضحکہ خیزندرت اور خودپسندانہ جھلک پائی جاتی ہے کہ دور سے آپ اُسے پہچان لیں گے۔
اس کے حُلیئے اور لباس میں آپ کو ایک مجنونانہ بے پروائی ملے گی اور بالوں کی صورتِ حال کو تو دیکھ کر ذوق کا یہ شعر یا د آجائے گا کہ :


خط بڑھا ، کاکل بڑھے ، قلمیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے


مقصد جس کا یہی ہوگا کہ ہم بھی شاعروں کی طرح تخیلی دنیا میں ہر وقت کھوئے رہتے ہیں ہیں۔ اس لیے نیم خود استغراقی اور نیم خود فراموشی کے باعث لباس اور بال بنانے کی طرح دھیان دینے کا موقع ہی نہیں ملا شیروانی جو کبھی اِ س کی پہچان ہوا کرتی تھی عرصہ ہوا اس طبقۂ خاص سے رخصت ہوچکی ہے البتہ شیروانی کی جگہ اب واسکٹ نے لے لی ہے۔ اب یہی سٹیٹس سمبل بن چکی ہے۔ پڑھنا جاری رکھیں→