ایک شام ہمہ جہت شخصیت مشتاق شباب کے نام


تحریر : اویس قرنی

وہ شام ہی ایسی تھی کہ رات کا خیمہ لگانا پڑا وہ بات ہی ایسی تھی کہ رات کم اور خیمہ چھوٹا پڑ گیا، لوٹتے سمے محسوس ہوا کہ سیدھی راہوں پر بھی گاڑی دوڑاتے موڑآہی جاتے ہیں ، جیسے اس شام نذیرتبسم اور ناصر علی سید کی الف لیلہٰ نے کئی بل کھاتے نازک پہلو بدلے۔
لیکن سڑک پر قمقموں کی روشنی قریب آئی تو گاڑی تیزی سے آگے گزر جاتی جیسے کسی کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے کردار کے روشن نگینے ذات کے نگر تک پہنچنے کا راستہ آسان بنا دیتے ہیں ایسی ہی محبت تھی جس کی بناء پر ایک دن اپنے احباب کو ڈاکٹر خالد مفتی نے شباب کی نفسیاتی مطالعے پر آمادہ کیا تھا اور ایک آج کی شام تھی، سنڈیکیٹ کا قافلہ تھا کہ آتے آتے اتفاق سے حق بابا کی یخ بستہ عمارت میں دھونی رما کے بیٹھ گیا تھا۔
جمعہ کی شام افق کے پہلے ستارے سے مشورہ کئے بغیر ناصر علی سید نے اس مشتاق قلمکار(جنہیں مشتاق شباب کہا جاتا ہے) سے منسوب محفل کی مشعل روشن کر دی ناصر علی سید نے مشتاق کو بیکن کے قول کا ردعمل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ مشورہ تو سب سے کرتے ہیں لیکن کرتے وہی تھے جو ہم دونوں کی مشترکہ مشاورت سے طے ہوتا تھا مشتاق نے اپنی سینیارٹی کے

ڈاکٹر محمد اعظم اعظم

جن کو کبھی بوتل سے باہر نہیں آنے دیا لیکن ایک جن ایسا ہے جو شباب کے قابو میں نہیں آیا یہ اس کی جارحانہ صاف گوئی کا بادہ ہے جو کبھی کبھی پیمانے سے چھلک پڑتا ہے اورکناروں کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ کوئٹہ میں اپنوں سے مفارقت اور ایک خوشگوار مگر نمدار ملن رت نے پھر سے شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ ایک نازک مثال حیات کے نازک مقدمے سے دیتے ہوئے ناصر علی سید نے کہا کہ ایک دفعہ تو بڑی گڑ بڑ ہوگئی اور یہی شاید اس ڈرامے کا المیہ ہے جس کا سکرپٹ کسی اور نے لکھا تھا تو ایک تو ان کی شادی جو انہوں نے بہت جلدی میں کی اور دوسری ان کی محبت جو انہوں نے بہت تاخیر سے شروع کی ۔ راقم الحروف نے اس شام کے ممدوح مشتاق کے ساتھ منظوم مکالمے کی صورت نکالی جس میں مشتاق کی مروت و مودت کےساتھ ان کی خود کو مشکلات میں ڈالنے کی ادا پر بھی ایک شتابی تبصرہ شامل تھا۔ مشتاق کی زندگی کا ہر ورق متحرک ہے کسی مثبت کام سے اور ممتنع ہے کسی اشرداد کے انعام سے ، علم و ادب کے میدانوں میں جہاں جہاں گئے ایسا یوگدان رہا انکا کہ ہر بار ملنے پر جی چاہتا کہ انہیں ’’یا ابو ریاضت‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے۔
ش شوکت میونسپل لائبریری میں عرصہ دراز تک خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اس تاریخی لائبریری کے ساتھ کھلواڑ شروع کیا گیا تو شباب کا جلال دیدنی تھا اب کی بار شہر کے بڑے ان کے نشانے پر تھے سو وہ ہدف ملامت بنتے ہوئے مشتاق کے آگے مقہور ٹھہرے اور ایسے کہ کسی کے لیے جائے مفر نہ تھی اس موقع پر شباب معاندانہ رویہ رکھنے والوں کو چیخ کر مخاطب کیا کہ کیا تم چنگیز خان بننا چاہتے و یا ہلاکو خان ۔ مشتاق کے قلم سے مضروب ہوکے پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ کتاب و قلم اور علم و عمل کے رشتے میں مخل ہوجائیں۔ پڑھنا جاری رکھیں→