شمع اردو کا پروانہ


شمالی وزیرستان کے واحد اردو شاعر اکرم وزیر سے خصوصی انٹرویو


وہاب اعجاز:۔ حسب روایت سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں؟
اکرام وزیر:۔ جناب ! میرا اصل نام امیر شہزادہ اور ادبی نام اکرم وزیر ہے۔ ۶ فروری 1966کو شمالی وزیرستان کی تحصیل ”وسلّی“ کے ایک خوبصورت گاؤں ”دوسلّی “ میں آنکھ کھولی ۔ یہیں تعلیم حاصل کی آج کل اسی گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں معلم کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی بحُسن و خوبی سرانجام دے رہا ہوں۔
وہاب اعجاز:۔ سنا ہے کہ آپ صرف اردو میں لکھتے ہیں نیز اس زبان سے بڑی محبت رکھتے ہیں۔ حالانکہ آپ ایک پشتو ن اور قبائلی ماحول میں رہتے ہیں۔اس بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
اکرم وزیر:۔ اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ مسلمانوں کی عظیم زبانوں میںسے ایک ہے ۔ دنیا کے ہر ملک میں اِس کے بولنے اور سمجھنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ مقتدرہ قومی زبان کے مجلّے ”اخبار اردو“ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت ( یہ بولنے اور سمجھنے والوں کے اعتبار سے ) دنیا میں دوسرے نمبر ہے ۔ یہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتی ہے۔ بڑ ی میٹھی اور پیاری زبان ہے۔حضرتِ داغ کیا خوب فرما گئے ہیں:


اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے


یہ الگ بات کہ ہمارے ملک میں اسے وہ مقام نہیں مل رہا جس کی یہ حقدار ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنی اقدار کو نہیں جانتیں، اپنی زبان و ثقافت کواہمیت نہیں دیتیں اور اپنے آپ کے بجائے دوسروں پر انحصار کرتی ہیں۔ وہ غلاموں کی سی زندگی بسر کرتی ہیں۔ کامیاب اور باعزت زندگی ان کے نصیبوں میں نہیں ہوتی ۔ ہمیں اپنے دین ، اپنے ملک ، اپنی زبان غرض یہ کہ اپنی ہر ایک چیز سے محبت کرنی چاہیے۔
میرا حال تو یہ ہے کہ اردو کا دیوانہ ہوں۔ اگر یوں کہوں گا کہ میں مجنوں ہوں اُردو میری لیلیٰ ہے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ عشق کا یہ سلسلہ بچپن سے لے کر آج تک بڑی کامیابی ، خوشی ، شوق اور صدق و خلوص سے جاری و ساری ہے۔ اب ایسے میں یہ بات کہ میں صرف اردو میں لکھتا ہوں، میرے خیال میں جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ یہ بھی بتادوں کی چند سال پہلے میں نے پشتو میں بھی کسی قدر لکھا۔ کچھ چیزیں پشتو کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو چکی ہیں۔
وہاب اعجاز:۔ شاعری کا آغاز کب اور کیسے کیا؟
اکرم وزیر:۔ شاعری کا آغاز 1984میں کیا۔ رہا یہ سوال کہ آغاز کیسے کیا؟ تو جناب! جیسا کہ آپ جانتے ہیں مجھے اردو سے بے پناہ محبت ہے ۔ اپنی اس محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے میں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا کیوں کہ مجھے معلوم ہوا کہ شاعری ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعے اردو کی خدمت کے ساتھ ساتھ ملک و ملّت کی خدمت بھی کی جاسکتی ہے۔
وہاب اعجاز: کیا آپ شروع ہی سے اپنا ادبی نام اکرم وزیر لکھتے چلے آرہے ہیں یا پہلے کوئی اور ادبی نام تھا؟
اکرم وزیر:۔ یہ بہت اہم سوال ہے ۔ بات یہ ہے کہ میں چار ساڑھے چار سال پہلے تک اپنے پرانے قلمی نام طالب وزیر سے لکھتا رہا جو بعد میں پسند نہ آیا ۔ آخر کار کافی سوچ بچار کے بعد 19فروری 1999کو طالب وزیر کے بجائے اپنا نیا ادبی نام اکرم وزیر رکھا جو اب مجھے بہت پسند ہے۔
وہاب اعجاز:۔ شاعری میں آپ کا استاد کون ہے ؟
اکرم وزیر:۔ جناب ! شروع میں امیر احمد پیلی بھیتی صاحب میرے استاد تھے۔ جو اب فوت ہو چکے ہیں ۔ اُن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نہایت دیندار ، شفیق اور مہربان انسان تھے۔ لیکن افسوس! اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ آ ج کل مسرور جالندھری صاحب میرے استاد ہیں۔ موصوف نہایت قابل ، مخلص ، مرنجاں مرنج اور ہمدرد انسان ہیں۔ میں بہت خوش اور نازاں ہوں کہ میں بھی اُن کے شاگردوں میں شامل ہوں۔
وہاب اعجاز:۔آپ کا کوئی مجموعہ کلام منظرِ عام پر آیا ہے؟
اکرم وزیر:۔ اب تک میرا کوئی مجموعہ کلام منظر عام پر نہیں آیا۔ میرے پاس ایک خوبصورت کتاب کا مواد ضرور موجود ہے لیکن فی الحال کتاب چھپوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ تاہم امید ہے کہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ البتہ ” تصویرِ سخن“ نامی کتاب میں میری غزلیں شائع ہو چکی ہیں۔ مذکورہ کتاب کی اشاعت کا سال 1997ہے۔ یہ کتاب کل ۳۳ شاعروں کے کلام پر مشتمل ہے۔
وہاب اعجاز:۔ اب تک آپ کا کلام کن کن اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوا۔
اکرم وزیر:۔ یوں تو میرا کلام ملک کے بہت سے اخبارات و رسائل اور ہفت روزوں میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتا رہتا ہے۔ لیکن میں چند خاص خاص اخبارات و رسائل کا ذکرکروں گا ۔ روزنامہ پاکستان اسلام آباد ، روزنامہ مشرق پشاور ، ہفت روزہ نکھار اسلام آباد ، ہفت روزہ ضرب مومن کراچی ، ہفت روزہ ترجمان ِ حق بنوں ، سہ ماہی ”فنون“ لاہور ۔ ماہنامہ فانوسِ ادب لاہور ، ماہنامہ فیض الاسلام راولپنڈی ماہنامہ گلدستہ ادب سانگلہ ہل شیخو پورہ اور ماہنامہ ”اذانِ سحر“ میر علی شمالی وزیرستا ن میں میرا کلام شائع ہو چکا ہے۔
وہاب اعجاز:۔ اب تک اردو کی جن ادبی شخصیات سے آپ کی ملاقاتیں ہوئی ہیں ، ان میں سے کچھ کے نام ؟
اکرم وزیر:۔ ویسے تو وطنِ عزیز کی بہت سی ادبی شخصیات سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ تاہم بعض لوگ بہت ہی ممتاز اور محترم ہوتے ہیں۔ میں نے جن قابل ذکر اور قابلِ قدر ہستیوں سے ملاقاتیں کی ہیں اُن میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
محترم احمد ندیم قاسمی صاحب ، محمد طہٰ خان صاحب ، خاطر غزنوی صاحب ، نذیر تبسم صاحب ، کشور ناہید صاحبہ اور محترمہ منصورہ احمد صاحبہ وغیرہ ۔
وہاب اعجاز: ۔ اردو اور پشتو زبان دونوں زبانوں کے جن شعراءسے آپ متاثرہیں اُن کے نام ؟
اکرم وزیر:۔ اُردوکے مرحوم شعراءمیں میر ، غالب ، آتش ، حسرت موہانی ، اقبال ، ناصر کاظمی ، فیض ، پروین شاکر ، محسن نقوی اور قتیل شفائی سے متاثر ہوں۔ جو بقیدِ حیات ہیں اُن میں اپنے استادوں امیر صاحب اور مسرور جالندھری صاحب کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی ، احمد فراز ، فرحت عباس شاہ اور محسن احسان میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اب پشتو شاعروں کی طرف آتا ہوں۔ تو جناب ! پرانوں میں رحمن بابا ، خوشحال خان خٹک ، حمید بابا ، کاظم خان شیدا ، حمزہ شنواری ، اور طاہر کلاچوی میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ عہدِ حاضر کے شعراءمیںرحمت اللہ درد ، افگار بخاری ، شمس الزمان شمس ، لائق شاہ درپہ خیل اور سیف مومند سے کا کلام پسند ہے۔
وہاب اعجاز:۔ کسی ادبی تنظیم سے وابستگی ؟
اکرم وزیر:۔ تین ادبی تنظیموں سے وابستگی رکھتا ہوں۔ (۱) بزمِ شعر و ادب اسلام آباد (۲)وحدت پشتو ادبی ٹولنہ میرانشاہ شمالی وزیرستان(۳) سخنستان ادبی تنظیم دوسلّی۔
وہاب اعجاز:۔ آپ کا بہترین دوست؟
اکرم وزیر:۔ سیف مومند صاحب میرے بہترین و آزمودہ دوست ہیں ۔ جو اچھے دنوں کے ساتھی بھی ہیں اور برے دِنوں کے بھی۔
وہاب اعجاز:۔ کیا آج کے دور میں بھی شاعری کی ضرورت باقی ہے؟
اکرم وزیر:۔ جناب ! میرے خیال میں شاعری کی جتنی ضرروت آج ہے اس سے پہلی کبھی نہیں تھی ۔ حالات روز بروز خراب ہو جارہے ہین۔ جبر و طاقت آزمائی ، حق تلفی و بے انصافی، کراہت و بے زاری ، حق فروشی و بے ایمانی اور باطل پرستی و گمراہی کا دور دورہ ہے۔ اِس حوالے سے میرا ایک شعر سنیے:


قلم والے دکھا زورِ قلم تو
یہ ظلم و زر و نفرت کی صدی ہے


ایک اور شعر :


نہ آئے جو کسی کے کام اکرم
تو پھر مطلب ہی کیا ، اس شاعری کا


اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شعر میں تاثیر ضرور ہوتی ہے ۔
وہاب اعجاز : ۔ قیام پاکستان سے پہلے کی شاعری اور اس کے بعد کی شاعری میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
اکرم وزیر:۔ اس سوال کا جواب اِس خاکسار کی ایک غزل کے مقطع میں موجود ہے:


ہمارے عہد کے شعروں میں اور سب کچھ ہے
ہمارے عہد میں اکرم وہ شاعری نہ رہی


وہاب اعجاز :علمِ عروض کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اکرم وزیر:۔ علمِ عروض بہت اہم اور ضروری ہے ۔ عربی ، فارسی اور اُردو شاعری عروض کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس بارے میں علامہ اقبال سے بھی رہا نہ گیا، فرماتے ہیں۔”اگر ہم نے پابندی عروض کی خلا ف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہو جائے گا۔“
وہاب اعجاز:۔ آپ پورے شمالی وزیرستان میں اُردو کے واحد شاعر ہیں۔ ہمیں اس بات پر فخر اور خوشی ہے ۔ اس حوالے سے آپ خود کیا محسوس کرتے ہیں؟
اکرم وزیر:۔ جناب ! واقعی یہ فخر اور خوشی کی بات ہے کہ اتنے بڑے علاقے میں یہ اعزاز صرف اس خاکسار کو حاصل ہے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے ، کرم ہے ، عطا ہے ۔ میرا یک شعرہے۔


مرے مہرباں تُو نے بخشی ہے عزت
وگرنہ یہ اکرم بہت کمتریں ہے


میرا ایک اور شعر ہے:


اگرچہ دوسرے شعبوں میں پیچھے ہوں مگر پھر بھی
وزیرستان میں اُردو کی سبقت ہے بہت مجھ کو


وہاب اعجاز :۔ آپ کو اصنافِ ادب میں غزل زیادہ پسند ہے یا نظم؟
اکرم وزیر:۔ ویسے تو اصناف ادب میں ہرصنف اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔ لیکن مجھے نظم کے مقابلے میں غزل زیادہ پسند ہے ۔ غزل اُردو میں مقبول ترین صنف ِ سخن ہے ۔ ان شاءاللہ ماضی و حال کی طرح اس کا مستقبل بھی بہت تاباں و درخشاں ہے۔
وہاب اعجاز : ۔ آپ کے خیال میں شاعری کرنا آسان ہے یا مشکل ؟
اکرموزیر:۔ میر کا ایک شعر ہے :
شاعری خالہ جی کا گھر تو نہیں
کچھ مقاماتِ سخت ہیں اس میں
وہاب اعجاز :۔ آپ کی شاعری کا خاص موضوع کیا ہے؟
اکرم وزیر:۔ میری شاعری کا خاص موضوع کوئی نہیں۔ ہر ایک موضوع پر قلم اُٹھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ البتہ محبت کی طرف رجحان کچھ زیادہ ہے۔ کیونکہ محبت ایک آفاقی جذبہ اور عالمگیر سچائی ہے۔
وہاب اعجاز:۔ سنا ہے آ پ کو ریڈیو سننے کابڑا شوق ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اکرم وزیر:۔ چند سال پہلے تک واقعی مجھے ریڈیو سننے کا بڑا شوق تھا۔ کیونکہ ریڈیو پاکستانی قوم کے دینی ، ادبی اور ثقافتی جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتا تھا۔ اس کے پروگرام اتنے دلچسپ ، معلوماتی اور معیاری ہوتے تھے کہ سامعین کی جانب سے پروڈیوسرز کو بے اختیار داد دینا پڑتی تھی ۔ یہ بھی بتادوں کہ میں نے ریڈیو سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ لیکن اب صورت ِحال یکسر مختلف ہے ۔ پروگرام اردو یا پشتو وغیرہ کا ہوتا ہے اور اُس کا نام انگریزی میں ہوتا ہے ۔ اکثر پروگراموں میں انگریزی الفاظ بلکہ مکمل انگریزی جملوں کی فراوانی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ علاوہ ازیں کچھ نئے غیر معیاری اور فضول قسم کے پروگرام بھی نشر ہونے لگے ہیں۔ الغرض ریڈیو پاکستان کے کارکنوں کا مجموعی طور پر وہ مشرقی انداز زوال پذیر ہے جو کبھی ان طرہامتیاز تھا۔ اب مغربی انداز اپنانے کی نامناسب کوششیں ہو رہی ہیں جو عارضی طور پر کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ لیکن ان شاءاللہ یہ کوششیں مستقل طور پر کامیاب نہیں ہوں گی۔
جناب! اسی سبب سے میں نے ریڈیو سننا تقریباً چھوڑ دیا ہے۔ آپ موقر میگزین کے توسط سے اس ادارے سے متعلقہ تمام حکام اور اس سے جڑے تمام کارکنان سے میری گزارش ہے کہ وہ میری بلکہ ملک بھر کے سامعین کی جائز شکایت دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
وہاب اعجاز:۔ نئے شعراءکے نام کوئی پیغام ؟
اکرم وزیر: ۔ نئے شعراءکے نام میرا پیغام یہ ہے کہ وہ مطالعے کی عادت اپنائیں ۔ دل لگا کر مطالعہ کیا کریں۔ کتابوں سے محبت رکھیں ۔ اُستادوں کا احترام کریں اور اس سائبر دور میں دلچسپ اور بہترین ادب تخلیق کرنے کی کوشش کریں۔
وہاب اعجاز: کیا آخر میں آپ اپنا کچھ کلام قارئین کی نذر کریں گے؟
اکرم وزیر:۔ کیوں نہیں۔ قارئین کی خدمت میں میری غزل اورحمدحاضرہے۔

حمد ِ باری تعالیٰ
ترے عشق سے جس کی آنکھوں میں نم ہے
جہاں کا اُسے کوئی دکھ ہے نہ غم ہے
جو تیرے محبت میں ڈوبا ہوا ہو
قسم ہے وہ انساں بڑا محترم ہے
الٰہی کہاں میں کہاں حمد تیری
یہ جو لکھ رہا ہوں ترا ہی کرم ہے
بھلا کیوں مرا دل تسلّی نہ پائے
کہ اِس پر ترا نام نامی رقم ہے
مجھے تو نے پیدا کیا جو مسلماں
یہ کتنا کرم ہے یہ کتنا کرم ہے
خدایا! ہمیں تو بچا لے اثر سے
ہر اِک سمت دُشمن ہے اور اُس کا سم ہے
مِری جان میں جان آئی ہے اکرم
وہ چیز آج لکھی جو فخرِ قلم ہے
٭٭٭٭٭٭٭
غزل
حوصلہ اب تک ہمارا کم نہیں
اس لیے تو ہارنے کا غم نہیں
مثلِ شبنم جو پڑے ہیں پھول پر
وہ کسی کے اشک ہیں شبنم نہیں
تُو نے اے دل کیسے کیسے دکھ سہے
میں تو سمجھا تھا کہ تو محکم نہیں
اے مرے ربّ! تُو میرا معبود ہے
تیرے آگے کب مرا سر خم نہیں
جس میں ہیں اے دل تصاویرِ صنم
حیف میرے بس میں وہ البم نہیں
ہر کسی کو شہر میں معلوم ہو
جو نہیں ہیں صاف گو وہ ہم نہیں
میرے بالوں کی سفید پر نہ جا
لو میرے دل کی ابھی مدہم نہیں
ہم کو اندازہ ہے یہ اکرم وزیر
گو ترے ہونٹوں پہ اب ہمدم نہیں

٭٭٭٭٭٭

تبصرہ کریں