اکیسویں صدی میں افکار اقبال کی تفہیم


تحریر: خالد سہیل ملک

alama Iqbal”مصنف نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں مندرجہ بالاموضوع پر منعقدہ سہ روزہ کانفرنس میں ایک مقالہ پڑھا ۔اس مقالے کی تلخیص قارئن کی نذرکی جاتی ہے “

نابغہ شخصیات وہی قرارپاتی ہیں کہ جو وقت کے تینوں زمانوںمیں سانس لیتی ہوںکہ جنہیں ماضی کی تصویراپنی تمام تر توجیہات اور تنائج کی صورت میں دکھائی دیں کہ حال تک پہنچنے کا منطقی ربط بھی معلوم ہو۔حال کے تقاضے بھی ان کی نظر میں سطحی سے زیادہ گہری نظر میں موجود ہوںکہ مستقبل کے رستوں کاتعین کیاجاسکے ۔علامہ اقبال بھی ایسے ہی نابغہ ہیں کہ انسانی تاریخ کے ہر باب سے ان کی نظر گزری ہے کہ جنہوں نے زمانہ حال کے حالات کو نہ صرف سمجھا بلکہ آنے والے وقتوں کو بھی اپنی نگاہ دروں بیں سے دیکھا ،پرکھا اور سمجھا ہے ۔مسلہ یہ رہا ہے کہ علامہ کو ایک خواب دیکھنے پر ہی مکمل کرلیا گیا۔ابھی ان میں بہت سے امکان باقی تھے مگر ان کی فکر کو اس سے آگے دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی۔ان کے فلسفہ خودی سے بات آگے بڑھائی ہی نہیں گئی ۔خودی اور بے خودی کے ان کے فلسفے میں بے شک بہت کچھ ہے لیکن علامہ تو اس سے آگے بھی بہت کچھ کہہ گئے ہیں کہ جسے درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔اقبال کی شاعری کا تو جواب شاید ہی اردو شاعری کی تاریخ میں کوئی دے سکے لیکن ان کے خطبات کی مثال بھی تو ہمارے ہاں کسی کے پاس نہیں ہے۔جس میں انہوں اس زمانے میں ہی عالم اسلام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔امام ابوحامد الغزالی کی جانب سے اجتہاد پر لگائی جانے والی پابندی کو اقبال نے اٹھانے کی ضرورت کو محسوس کیا تھاکہ اس دور میں جو پابندی لگائی گئی تھی وہ پابندی بجاتھی کہ بہت سے مشتشرکین کی جانب سے اجتہاد کے نام پر بہت سے ایسی باتیں سامنے آگئی تھیں کہ جو اسلام کی روح کے منافی تھیں ۔قرآن مجید جو کہ ایک بہت ہی تہذیبی زبان میں نازل ہوا ہے ۔جس کی تفہیم کے لیے اس زبان پر ویسا ہی عبور لازمی ہے،مشتشرکین عربی زبان کی اس بلندی پر تفہیم میں چوک جاتے تھے کہ جہاں مسائل جنم لیتے ہیں ۔مگر علامہ نے یہ سوال اٹھایا کہ ایک عنصر کہ جو اسلام کے عین مطابق ہے ۔کہ جس کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہوتو اسے کیونکرمعطل رکھا جاسکتا ہے ۔ہاں اجتہاد کوعمل میں لانے کے لیے ضابطہ اخلاق اور مجتہد کے لیے شرائط وہی ہوں کہ جو ہونی چاہئیںمگر اجتہاد کا دروازہ کھلنا ضروری ہے ۔ اقبال کے نذدیک آج کے انسان کو اجتہاد کی ماضی کے سب ادوار سے زیادہ ضرورت ہے کہ زندگی میں ارتقاءکا عمل پہلے کی نسبت بہت تیز ہے ۔تبدیلیاں سرعت کے ساتھ ظہور پذیر ہیں ۔سائنس اور علوم وفنوں کے نئی حقیقتوں سے انسان کو روشناس کروادیا ہ گیاہے ۔ ایسی حالت میں قرآن کہ جو آخرت تک سب سے بڑا سچ اور سب سے ویلڈ تحریر ہے ،قرآن کو اس کی سپرٹ کے ساتھ سمجھ کر ہی تشکیک سے مسلمان کو نکالا جاسکتا ہے۔قرآن کونئے انداز اور زمانے کی نئی حسیات کے ساتھ سمجھنے کے لیے اجتہاد بہت ضروری ہے۔اقبال نے اس سوچ کو چیلنج کیا کہ مشاہد ہ ہی سچ ہے اور آئیڈیا سچ نہیں ،آئیڈیا اسی وقت حقیقت یا سچ ثابت ہوسکتا ہے جب وہ آئیڈیا بجائے خود مشاہدے میں تبدیل نہ ہوجائے ۔ اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا فورس آف آئیڈیا ہی سب کچھ ہے کہ آئیڈیا ہی سب سے بڑی قوت ہے کہ وجود سے بھی زیادہ مظبوط اور طاقت ور ہے ،کیونکہ خدا بھی مشاہد نہیں ہے بلکہ آئیڈیا ہے گویا اقبال نے جو کہا کہ گاڈ از آئیڈیا تو اس کے تناظر میں یہی فلسفہ تھا کہ جسے بہ الفاظ دیگر ایمان بھی کہاجاسکتا ہے ۔اقبال کے نذدیک آئیڈیا ایک فکری ودیعت ہے کہ یقین کی حد کو چھولیتا ہے ۔اللہ کی واحدانیت بھی تو مشاہدہ نہیں بلکہ آئیڈیا ہی کی ایک یونیٹی ہے ۔علامہ کے مطابق احساس اور فکر کا نام ایمان ہے ۔ایمان فکر کو دسپلن کرتا ہے ۔شریعت اور اسوہ حسنہ ﷺایمان کے ساتھ مل ایک چوکٹھا مرتب کرتے ہیں۔یہ فریم جو اس کائنات پر محیط ہے اور اس کائنات کامقصد بھی ۔ اس چوکٹھے میں توتصور ابھرتا ہے اس کا پروٹوٹائپ ماڈل اقبال کے نذدیک رسالت ہی ہے ۔ایمان صرف لفظوں کا محتاج نہیں بلکہ برکات وحی کے لطف لینے کا نام ہے ۔یہ سلسلہ تو علامہ کے نذدیک زبانی ،قلبی اور روحانی کیفیت کے ملاپ سے جنم لیتا ہے ،اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے اس حد تک راسخ نہ کرلیا جائے کہ جس حد پر کوانٹم تھیوری کے قانون کو مانا اور سمجھا جاتا ہے کہ جس تھیوری کی بنیاد پر دنیا کا نظام چل رہا ہے اور چلایا جارہا ہے ۔اقبال دنیا میں پھیلے فساد کی جڑ اس بے کلی یا بے چینی کو قراردیتے ہیں کہ جو انسان کو کسی اور سلسلے کے لیے ودیعت ہے

بے کلی کوموجب راحت بنا
بے قراری باعث عزت بنا

اور ایسا اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایمان کو تصدیقاً بالقلب کے درجے تک پہنچایا جاتا ہے جوکیفیت پیغمبر ﷺ کے صحابہ کرام کومیسر تھی۔اب ایسی بنیادوں باتوں کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کتنا اہم اور موثر کردار ادا کرسکتا ہے یہی وہ سوچ تھی جو علامہ نے اپنے خطبات کے ذریعے اسلام کے ماننے والے اعلیٰ اذہان تک منتقل کرنا چاہی ۔افسوس کہ اقبال کی شاعری کی دلفریبی اتنی شاندار ہے کہ ان کی شاعری نے اپنے سرور میں ان کے خطبات کو بڑے عرصے تک دبائے رکھا ۔اکیسویں صدی میں ان کے خطبات کی تفہیم بالخصوص اسلامی معاشرے اور بالعموم ساری دنیا کے لیے کسی انٹی بائیوٹک سے کم نہیں ہے ۔مسلمان خود اپنے آئین کو توقلبی طور سمجھ نہیں سکا کہ اس کا خدا کے ساتھ ایگریمنٹ کیا ہے ۔ اسے اگر خلیفہ کا درجہ دیا گیا ہے تو اس خلافت کے تقاضے کیا ہیں ۔اقبال تو اسلام کو پنی شیا ۔یا اکسیر سمجھتے ہیں تمام تر انسانیت کے لیے ۔ماضی قریب میں جب انسان کو فزیکل بینگ تصور کیا جاتاتھا تو انسان کی سیلف یا سول کی تفہیم بھی مشکل تھی ۔نفسیات کے علم نے انسان کو سائیکوفزیکل بینگ قراردیا تو انسان کی سیلف اور کی تلاش کا سفر شروع ہوا۔اقبال بھی انسان کو سائیکوفزیکل بینگ سمجھتے ہیں جو سیلف اور سول کا ملاپ ہے کہ جس کی سیلف اور سول کا ریزن ڈیٹر وہی ایمان ہے کہ جو احساس اور فکر سے جنم لیتا ہے۔انسان نے مادی دنیا کو خود پر اتنا طاری کررکھاہے کہ اس کی سیلف اور سول کی بالیدگی کاسامان کم از کم مادیت میں موجود ہی نہیں جب تک انسان اپنے مقصد حیات کو نہیں پالیتا کہ جس مقصد کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔اس مقصد کو سمجھنے کے لیے دین ہی واحد راستہ ہے اور ادیان میں سب سے جدید دین اسلام ہی ہے ۔ کہ جس میں کتاب اور رول ماڈل موجود ہے ۔اکیسویں صدی شاید ماضی کی صدیوں سے زیادہ حساس صدی ہے انسان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے وہ کہ جہاں ایک طرف تو دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے تو وہیں مذہب و عقیدے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ مادیت کی دوڑ میں روحانیت کو کچلاجاچکا ہے ۔عقائید میں مکالمہ ختم ہوچکا ہے ۔فساد کے بہانے تلاشے جارہے ہیں ۔ایسے میں علامہ کے افکار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ جسے پھیلا کر ایک امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکتی ہے ۔

ایک خیال “اکیسویں صدی میں افکار اقبال کی تفہیم” پہ

تبصرہ کریں