داغ سجدوں کا بر جبیں آیا
بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آیا
وہ حسین بھی زُباں کا پکا تھا
”نا“ ، کہا جب تو پھر نہیں آیا
بات اُس نے کہی پہ بن نہ سکی
جب وہ رقیبِ نکتہ چیں آیا
سارے لفظوں میں زباں پر تیری
”تو“ کا اِک لفظِ دلنشیں آیا
اُس کے وعدے پہ میں جو ُمسکایا
وہ یہ سمجھا ، مجھے یقیں آیا
اب افتخار سے گلہ کیا ہے
گھوم پھر کر تو پھر یہیں آیا
افتخار درانی ایڈوکیٹ
i like you poetry so much. i wish you live long. love you man