دنیائے اضطراب کی خدمت نہ کرسکے
جو لوگ مطمئن تھے وہ ہجرت نہ کر سکے
میں اُن کی دوستی کا بھروسہ کروں تو کیا
ڈٹ کر جو میرے ساتھ عداوت نہ کر سکے
ہاں ! اہلِ درد گزرے کئی دورِ منفعت
ہم زخم ہائے دل کی تجارت نہ کر سکے
جو بھی ستم تھا نعرۂ حاکم پناہ تھا
ایسے میں اہلِ شہر بغاوت نہ کر سکے
خاکے تو بے شمار بناتے تھے ہم مگر
قائم کوئی بھی خواب عمارت نہ کر سکے
آؤ کہ اعتراف کریں دل کے رُوبرُو
ورثہ ملا ہم اُس کی حفاظت نہ کر سکے
ڈاکٹر نذر عابد ہزارہ یونیورسٹی